بنگلوروو،28/دسمبر (ایجنسی) شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹرآف سٹی زن(این آر سی) پر زبردست مظاہرے اور پرتشدد احتجاج کے بعد مودی حکومت نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر(این پی آر) کا شوشہ چھوڑ کر ہندوستانیوں کو ایک الگ ہیجان میں مبتلا کردیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ این پی آر کے اعداد و شمار کا استعمال کبھی بھی این آر سی کے لئے نہیں کیا جائے گا۔جبکہ حقیقت میں این پی آر ان ضابطوں کا حصہ ہے جنہیں این آر سی کے لئے تیار کیا گیا ہے۔این آر سی کو شہریت قانون1955کے تحت این پی آر کی بنیاد پر 2003 کے شہریت ضابطوں میں درج کیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق اپنی پہلی مدت کار میں نریندر مودی سرکار نے پارلیمنٹ میں کم سے کم نو مرتبہ بتایا تھا کہ این آر سی کو ا ین پی آر اعداد وشمار کی بنیاد پر پورا کیا جائے گا۔حال ہی میں جاری وزارت داخلہ کی2018-19 کی سالانہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ این آر سی نافذ کرنے کی سمت میں این پی آر پہلا قدم ہے۔8جولائی2014کو کانگریس رکن پارلیمان راجیوستو کے سوال کے تحریری جواب میں اس وقت کے وزیر نے کہا کہ این پی آر کے منصوبے کا تجزیہ کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ این پی آر کو پورا کیا جانا چاہئے اور اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے جو کہ این پی آر میں ہر عام شہری کی شہریت کی حالت کی تصدیق کرکے این آر سی کو فروغ دینا ہے۔15/اور22جولائی کو لوک سبھا میں وقفہ سوال کے دوران کرن رجیجو نے ایک پھر سے این پی آر کا تعلق این آر سی سے جوڑا۔ 26نومبر کو انہوں نے راجیہ سبھا میں کہا کہ این پی آر ہر ہندوستانی شہری کی شہریت کی حالت کی تصدیق کرکے این آر سی کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ تاریخی حوالے کے بعد وزیر داخلہ کا بیان کہ این پی آر کا تعلق این آر سی سے قطعی نہیں ہے جھوٹا اورمکر وفریب پر مبنی ہے۔دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ڈی ٹینشن سنٹر سے متعلق متضاد بیانات نے ہندوستانی سیاست میں ایک ہلچل مچادی ہے۔وزیراعظم نے رام لیلا میدان میں کہا کہ ہندوستان میں ڈی ٹینشن سنٹر ہے ہی نہیں اور این آر سی کے تعلق سے نہ تو کابینہ میں بات ہوئی اور نہ ہی پارلیمان میں۔ جبکہ مذکورہ بالا سطور میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پارلیمنٹ میں این آر سی کے تعلق سے بی جے پی کے اراکین نے کئی مرتبہ گفتگو کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ این پی آر کو این آر سی کا پہلا قدم بتایا ہے۔مرکزی وزیر داخلہ ڈی ٹینشن سنٹر سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو ہندوستان میں پہلے ہی سے تیار کیا گیا ہے۔ اس پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ مودی سچے ہیں یا امیت شاہ جھوٹے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکار کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آسام میں 6ڈی ٹینشن سنٹر ہیں جن میں 900 سے زیادہ لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں۔جنوری 2019 میں وزارت داخلہ نے سبھی ریاستوں اور مرکزی ماتحت ریاستوں کو اپنے یہاں کم از کم ایک ڈی ٹینشن سنٹر بنانے کے لئے ہدایت جاری کی تھی۔ ملک میں غیر قانونی طریقے سے مقیم غیر ملکی باشندوں کو رکھنے کے لئے ڈی ٹینشن سنٹر بنانے کی بات کوئی نئی نہیں ہے۔2009ء کے بعد سے چار مرتبہ ریاستی سرکاروں کو ایسے ڈی ٹینشن سنٹر بنانے کی ہدایت جاری کی جاچکی ہے۔27نومبر2019 کو ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان ڈاکٹر شانتنوسین کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے راجیہ سبھا میں جواب دیا تھا کہ 2016 سے 13دسمبر2019تک آسام کے ڈی ٹینشن سنٹر میں 28لوگوں کی موت ہوئی ہے۔